پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے کوئی بھی ایسا جرم سرزد ہو جس کی تحقیقات کی وسیع پیمانے پر ضرورت ہو تو حکومت یا تحقیقاتی اداروں کی جانب سے فرانزک تحقیقات کی تجویز سامنے آتی ہے۔
جج ارشد ملک کی آڈیو، ویڈیو کا معاملہ ہو یا عثمان مرزا کیس کی ویڈیو، زینب قتل کیس ہو یا پھر موٹروے ریپ کیس، یہاں تک کہ شوگر تحقیقات جیسے وائٹ کالر معاملات کی تحقیقات کے لیے بھی فرانزک تحقیقات کرائی گئی ہیں۔
یہ فرانزک تحقیقات کیسے ہوتی ہیں، پاکستان میں اس حوالے سے کیا سہولیات موجود ہیں اور ان سے کسی بھی کیس کو حل کرنے میں کتنی مدد ملتی ہے؟‘
فرانزک تحقیقات کیا ہیں؟
ماہرین کے مطابق فرانزک تحقیقات قانونی نظام میں کسی بھی معاملے کی وسیع تر تحقیقات اور سوالات کے جوابات تلاش کرنے کا ایک سائنسی ٹول ہے۔
فرانزک سائنس ایکسپرٹ دانش بشیر منگی کے مطابق ’فرانزک تحقیقات کے ذریعے کسی بھی جرم یا واقعے کو سائنسی طریقے اور اصولوں کے ذریعے شواہد ثابت کرنے، جرم کے طریقہ کار اور جسمانی شناخت میں مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔ یعنی پولیس یا تحقیقاتی ایجنسی ملنے والے شواہد سے متعلق جن سوالات کے جواب جاننا چاہتی ہے فرانزک کے ذریعے وہ تلاش کیے جاتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’فرانزک تحقیقات کا آغاز کرائم سین سے ہی کیا جاتا ہے تاہم پاکستان میں کرائم سین انویسٹی گیشن پر بہت زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ بہت ضروری ہے کہ موقع واردات سے کسی قسم کا کوئی ثبوت ضائع نہ ہونے پائے۔‘
دانش بشیر منگی کا کہنا ہے کہ ’فرانزک تحقیقات کے نتائج کی کامیابی کا انحصار بھی پولیس کی جانب سے موقع واردات سے جمع کیے گئے شواہد پر ہی ہوتا ہے۔ اگر اس میں فرانزک پروٹوکول کا خیال رکھا جائے تو فرانزک تحقیقات انصاف کی فراہمی میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔‘
فرانزک ایکسپرٹ صائمہ بتول نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’فرانزک تحقیقات دراصل کسی جرم کے طبعی شواہد کا سائنسی جائزے کا نام ہے۔ جیسے ڈی این اے، خون کے نمونہ جات، فنگر پرنٹس اور دیگر انسانی اعضا کا سائنسی مشاہدہ فرانزک تحقیقات میں شمار ہوتے ہیں۔‘
فرانزک تحقیقات کیوں ضروری ہیں؟
پاکستان میں عموماً یہ شکایت سننے کو ملتی ہے کہ پولیس ملزموں کو گرفتار کرکے عدالتوں میں پیش کرتی ہے لیکن عدالتیں انھیں عدم ثبوت کی بنیاد پر بری کر دیتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس کی بڑی وجہ بھی یہی ہوتی ہے کہ ایک تو پولیس مقدمے کے ثبوتوں کو خراب کر دیتی ہے یا پھر عدالتوں میں جھوٹے گواہ پیش ہو جاتے ہیں جو ملزمان کو بچانے کے باعث بنتے ہیں۔ اسی وجہ سے عدالتیں بھی اس بات پر زور دیتی ہیں کہ فرانزک تحقیقات کو فروغ دیا جائے۔
پاکستان کے سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل شاہ خاور نے اس حوالے سے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’پہلے ایک روایتی تفتیش کا طریقہ کار ہوتا تھا جو اب فرسودہ ہو چکا ہے۔ اب جدید اور سائنسی طریقے سے ثبوت اکٹھے کیے جاتے ہیں یا جمع شدہ ثبوتوں کا فرانزک کروایا جاتا ہے جو بعد میں مقدمے کے ریکارڈ کا حصہ بنا کر عدالتوں میں پیش کیے جاتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’اگر کسی ویڈیو میں ایک فرد جرم کرتا ہوا نظر آتا ہے اور تحقیقات کے دوران وہ یہ کہہ دے کہ ویڈیو میں وہ موجود نہیں بلکہ ویڈیو ایڈٹ کی گئی ہے تو فرانزک تحقیقات کے ذریعے چیک کیا جا سکتا ہے کہ ویڈیو کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے یا نہیں۔‘
شاہ خاور نے بتایا کہ ’حال ہی میں عثمان مرزا کیس جس میں ملزمان کی جانب سے لڑکی اور لڑکے کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا اور اب نور مقدم قتل کیس میں بھی ویڈیو کا فرانزک ٹیسٹ کرایا گیا ہے۔‘
شاہ خاور کے مطابق ’صرف یہی نہیں بلکہ فرانزک تحقیقات کے ذریعے پولی گرافک ٹیسٹ کے ذریعے ملزم کی نبض کی رفتار، دل کی دھڑکن، بلڈ پریشر اور دیگر جسمانی حرکات کے ذریعے ماہرین اس کے سچے یا جھوٹے ہونے کا تجزیہ سائنسی بنیادوں پر کر سکتے ہیں اور عدالتیں اسے تسلیم بھی کرتی ہیں۔‘
صائمہ بتول کے مطابق ’روایتی طریقہ کار میں مضروب کا میڈیکو لیگل کروایا جاتا تھا جبکہ جدید تفتیش میں میڈیکو لیگل نہیں بلکہ فرانزک کروایا جاتا ہے۔ اس کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ فوری انصاف فراہم کیا جا سکے اور شواہد ضائع ہونے کا کوئی امکان نہ ہو۔‘
پاکستان میں فرانزک تحقیقات کی دستیاب سہولیات
پاکستان میں اس فرانزک تحقیقات کے دو بڑے ادارے موجود ہیں جن میں ایک نیشنل فرانزک سائنس ایجنسی ہے جس کے تحت مختلف لیبارٹریز ہیں جبکہ پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی دوسرا ادارہ ہے۔
وفاق کی سطح پر نیشنل فرانزک سائنس ایجنسی کا قیام 2002 میں عمل لایا گیا۔ جس کی مختلف لیبارٹریز تحقیقات کے لیے استعمال ہوتی ہیں جن میں ڈی این اے، فائر آرمز، فنگر پرنٹس، دھماکہ خیز مواد اور کرائم سین انویسٹی گیشن کی سہولیات موجود ہیں۔
دوسری جانب پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی اس شعبے میں سب سے جدید ہے جو نہ صرف صوبے بلکہ وفاق اور دیگر صوبوں کو بھی خدمات فراہم کر رہی ہے۔
پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی میں آڈیو ویڈیو تجزیہ، فرانزک فوٹو گرافی، کمپیوٹر فرانزک، ڈی این اے اور سیرالوجی، پتھالوجی، فنگر پرنٹ، منشیات اور ٹریس کیمسٹری کے فرانزک کی سہولیات موجود ہیں۔
سانحہ مستونگ، زینب قتل کیس، موٹرے وے ریپ کیس، عزیز الرحمان کیس، اومنی گروپ سکینڈل، اجمل وزیر آڈیو سکینڈل، ڈہرکی ٹرین حادثے سمیت متعدد واقعات کی فرانزک تحقیقات کروائی گئی ہیں۔
اس کے علاوہ خیبر پختونخوا میں پولیس کی فرانزک سائنس لیبارٹری اور کراچی یونیورسٹی میں سندھ کی فرانزک سائنس لیبارٹری نے بھی کام شروع کر دیا ہے۔
لیکن ماہرین کے مطابق خیبر پختونخوا لیبارٹری میں ڈی این اے اور سیرالوجی کے علاوہ انوسٹی گیشن کی ابتدائی سہولیات ہی دستیاب ہیں جبکہ سندھ کی لیبارٹری میں صرف ڈی این اے کی سہولت موجود ہے۔
فرانزک ایکسپرٹ صائمہ بتول کے مطابق ’تمام لیبارٹریز سرکاری ہیں جبکہ پرائیویٹ لیبارٹریز میں فرانزک کی سہولت موجود نہیں ہے۔ جو فرانزک سہولیات دستیاب ہیں وہاں پر تربیت یافتہ افراد نہ ہونے کی وجہ سے مطلوبہ نتائج کا حصول ممکن نہیں ہو پا رہا۔ اس کے لیے سب سے پہلے فرانزک ماہرین کی بھرتی کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پولیس اہلکاروں کو جدید خطوط پر تربیت دینا ہوگی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’فرانزک تحقیقات کو پولیس اہلکاروں کے اعصاب پر سوار کر دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ان کو تربیت دے بھی دی جائے تو وہ سائنسی اصولوں اور فرانزک پروٹوکولز کو فالو نہیں کر سکتے۔ اس لیے پولیس میں بھی فرانزک ماہرین کی بھرتی لازمی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے قانون شہادت میں بھی بہتری لانے کی ضرورت ہے جو فرانزک تحقیقات کو عدالت نظام میں مکمل قابل قبول بنائے۔‘
تمغہ امتیاز اپنے نام کرنے والی پاکستان کی معروف اداکارہ مہوش حیات کو اکثر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حالیہ دنوں میں نور مقدم قتل کیس کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرتے اداکارہ نے ریاست سے سوال کیا تھا کہ ’اب ہیش ٹیگز اور نعروں کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ اب ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ حکومت خواتین پر ہونے والے ظلم کو روکنے کے لیے کیا کر رہی ہے۔‘
اس بیان کے بعد ٹوئٹر صارفین کی جانب سےاداکارہ کو خواتین کو گمراہ کرنے کے الزام کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔
اداکارہ مہوش حیات نے اپنے خلاف تنقید کرنے والے اور غلط زبان استعمال کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ’میں نے حکومت کے خلاف کچھ نہیں کہا، لیکن ہم جمہوریت میں رہتے ہیں اور یہ مجھ سمیت ہر شہری کا حق ہے کہ اقتدار میں موجود لوگوں سے جواب مانگ سکے۔ میرے نام کے ساتھ نازیبا الفاظ کا استعمال آپ کی ذہنیت کا ثبوت ہے اور یہ بات مجھے اپنے جمہوری حق سے نہیں روک سکتی۔‘
ٹوئٹر صارف نتاشا کنڈی نے لکھا کہ ’آپ اس قوم سے کیا امید کر سکتی ہیں جنہیں ابھی تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ آپ کو تمغہ امتیاز کیوں دیا گیا؟‘
ٹوئٹر صارف اطہر کاظمی نے لکھا کہ ’مہوش اگر آپ نے حکومت پر تنقید بھی کی ہے تو یہ آپ کا حق ہے۔ یہ حق آپ کو آئین پاکستان دیتا ہے۔ آپ کی کسی رائے سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، لیکن آپ پر ذاتی حملے، غیر شائستہ زبان استعمال کرنے والے قابل مذمت اور بیمار ذہنیت کے حامل ہیں۔‘
جہاں صارفین نے اس حوالے سے مہوش حیات سے اتفاق کیا وہیں اکثر نے اس بیان کو سیاست میں آنے کا راستہ بھی قرار دیا۔
توئٹر صارف عبدالغنی نے لکھا کہ ’ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ مہوش حیات نے ہمیشہ عورتوں اور بچوں کے بارے میں مثبت خیالات کا اظہار کیا۔‘
یاد رہے کہ چند روز قبل سینیئر صحافی اور اینکرپرسن سہیل وڑائچ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اداکارہ مہوش حیات نے کہا تھا کہ ’اگر ایک کرکٹر ملک کا وزیراعظم بن سکتا ہے تو ایک اداکارہ کیوں نہیں۔‘
ان کے اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر بحث کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔
افغانستان میں ایک نجی ہسپتال کے مالک نے کہا ہے کہ ’افغانستان کی فضائیہ نے سنیچر کے روز ان کے ہسپتال پر بمباری کی جس کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک اور تین زخمی ہوگئے ہیں۔‘
امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق 20 بستروں پر مشتمل افغان آریانا ہسپتال کے مالک ڈاکٹر محمد دین ناریوال کا کہنا ہے کہ ’حملہ اس شبے میں کیا گیا کہ یہاں طالبان جنگجوؤں کا علاج ہورہا تھا۔‘
ڈاکٹر محمد دین ناریوال نے اے پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں صوبائی حکومت کے حکام نے بتایا کہ ’لشکر گاہ میں ان کے ہسپتال کو وزارت دفاع کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہسپتال میں کوئی طالبان نہیں تھا۔‘ اس حوالے سے اے پی نے متعدد مرتبہ افغان وزارت دفاع سے موقف معلوم کرنے کے لیے رابطہ کیا تاہم وزارت نے فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔‘
ڈاکٹر محمد دین ناریوال کے مطابق ’انہیں بتایا گیا ہے کہ یہ حملہ غلطی سے ہوا کیونکہ انہیں یہ غلط معلومات فراہم کی گئی تھیں کہ ہسپتال میں طالبان موجود ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’دراصل طالبان شہر کے ایک دوسرے ہسپتال میں زیر علاج تھے۔‘
صوبائی کونسل کے سربراہ عطا اللہ افغان نے تصدیق کی ہے کہ ‘افغان فضائیہ نے ہسپتال پر حملہ کیا ہے جس میں ایک شخص ہلاک ہوگیا ہے۔‘
دوسری جانب طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے افغان فضائیہ کی جانب سے ہسپتال پر حملے کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’لشکر گاہ کے نجی ہسپتال پر حملے میں انڈین جہاز استعمال کیے گئے، جس سے طبی مرکز کا بڑا حصہ آگ لگنے سے تباہ ہوگیا ہے۔‘
اس ہسپتال پر حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب طالبان جنوب مغربی شہر لشکرگاہ کی جانب پیش قدمی کررہے ہیں اور اس دوران ان کی افغان فورسز کے ساتھ شدید لڑائی جاری ہے۔
مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ ’علاقے میں افغان جنگجوؤں اور افغان فورسز کے درمیان دوبدو لڑائی ہورہی ہے۔‘
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان پر سفری پابندیوں کا انھیں پوری طرح علم ہے اور اس کے بارے میں سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان السعود سے بات کی ہے۔
اتوار کو سرکاری ٹی وی پر ٹیلی فون پر پاکستانی شہریوں پر کورونا کی وجہ سے عائد سفری پابندیوں کے بارے میں پوچھے گئے ایک ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ’مجھے کا اس پوری طرح علم ہے۔ ابھی سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود دورے پر آئے تھے تو میں نے ان سے پوری تفصیل سے بات کی تھی۔ میں نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے لیے پیغام دیا کہ ہمارے لوگوں کے بہت سارے مسائل ہیں، تو انہوں نے مجھے یقین دلایا تھا کہ وہ ہمارا یہ مسئلہ حل کریں گے۔‘
خیال رہے کہ گذشتہ منگل کو سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود ایک روزہ دورے پر اسلام آباد آئے تھے۔
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود نے اپنے پاکستانی ہم منصب کے علاوہ وزیراعظم عمران خان، صدر عارف علوی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتیں کی تھیں۔
سعودی عرب میں پبلک پراسیکیوشن نے کہا ہے کہ ’مملکت آنے والے مسافروں کو یہ بتانا ہوگا کہ آیا وہ کورونا وبا سے متاثرہ کسی ملک یا وائرس کی کسی نئی شکل سے متاثرہ ملک گئے ہیں یا نہیں‘۔
’سعودی عرب بین الاقوامی پروازوں سے آنے والوں، فضائی کمپنیوں، بحری جہازوں اور گاڑیوں کے ذمہ داران اور آپریٹرز کی ذمہ داری ہے کہ وہ مملکت آمد پر یہ بتائیں کہ آیا وہ کورونا وبا سے متاثرہ کسی ملک یا وائرس کی کسی نئی شکل سے متاثرہ ملک گئے ہیں یا نہیں‘۔
عاجل ویب سائٹ کے مطابق پبلک پراسیکیوشن نے بیان میں خبردار کیا ہے کہ’ جان بوجھ کر یہ بات چھپانے پر پانچ لاکھ ریال تک کا جرمانہ ہوگا‘۔
پبلک پراسیکیوشن نے ٹوئٹر پر بیان میں کہا کہ’جو شخص وبا سے متاثرہ ملک یا کورونا وائرس کی نئی قسم سے متاثرہ ملک جانے کی بابت معلومات چھپائے گا اس پر پانچ لاکھ ریال تک کا جرمانہ ہوگا‘۔
بیان کے مطابق’ اگر کسی اور قانون کے تحت اس پر کوئی اور سزا ہوگی تو وہ سزا بھی اسے دی جائے گی‘۔
پبلک پراسیکیوشن نے مزید کہا کہ ’معلومات چھپانے والا شخص یا ہوائی جہاز یا بحری جہاز یا ٹرانسپورٹ چلانے والی کمپنی یا ادارہ وہ تمام نقصانات برداشت کریں گے جو اس خلاف ورزی کی صورت میں ہوں گے‘۔
سعودی عرب میں موسمیات کے قومی مرکز نے پیر 2 اگست سے متعلق مملکت بھر میں موسمی تبدیلیوں کے حوالے سے پیشگوئی جاری کی ہے۔
اخبار 24 کے مطابق قومی مرکز کا کہنا ہے کہ ’پیر کو بھی جازان، عسیر اور باحہ میں گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے۔ گرد آلود ہوائیں چلیں گی اور ژالہ باری ہوگی بارش کے باعث سیلاب بھی آسکتا ہے‘۔
قومی مرکز کا کہنا ہے کہ ’ نجران کے پہاڑی علاقوں اور مکہ مکرمہ کے بعض مقامات پر گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان جبکہ گرد آلود ہواؤں سے مکہ مکرمہ ریجن اور جنوب مغربی علاقوں کے بالائی مقامات میں حد نظر محدود ہوجائے گی‘۔
’غبار آلود ہواؤں کا سلسلہ نجران تک پھیل جائے گا جبکہ ریاض ریجن کے جنوبی مقامات اور بحیرہ احمر کا جنوبی ساحل بھی گرد آلود ہواؤں کی لپیٹ میں ہوگا‘۔
بیان میں قومی مرکز کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ درجہ حرارت 46 سینٹی گریڈ دمام اور حفر الباطن میں ہوگا جبکہ سب سے کم درجہ حرارت 16 سینٹی گریڈ السودۃ میں متوقع ہے‘۔
علاوہ ازیں محکمہ شہری دفاع نے شہریوں اور مقیم غیرملکیوں سے اپیل کی کہ وہ اتوار سے جمعرات تک جازان، عسیر، نجران، باحہ اور مکہ مکرمہ میں تمام احتیاطی تدابیر کی پابندی کریں۔
ان پانچوں علاقوں میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ موسلا دھار بارش اور پھر سیلاب کے خطرات ہیں۔
ایس پی اے کے مطابق محکمہ شہری دفاع نے بیان میں موسمیات کے قومی مرکز کے حوالے سے بتایا کہ’ پیر سے جمعرات تک مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، تبوک اور حائل میں اوسط درجے کی بارش کا امکان ہے‘۔
محکمہ شہری دفاع نے ہدایت کی ہے کہ’ وہ غیر مستحکم موسم کے دوران احتیاط برتیں اور ایسے تمام مقامات سے دور رہیں جہاں سے سیلاب گزرتا ہے۔ مختلف ذرائع ابلاغ کے توسط سے سلامتی کے لیے جاری کی جانے والی ہدایات کی خاص طور پر پابندی کریں‘۔
کویت نے کابینہ کے فیصلے کے مطابق اتوار یکم اگست سے ویکسین لگوانے والے غیرملکی مسافروں کا خیر مقدم شروع کر دیا ہے۔
عاجل ویب سائٹ کے مطابق کویت انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اتوار کو عرب ممالک سمیت بیرون ملک سے کویت میں مقیم غیرملکی پہنچے ہیں۔
یاد رہے کہ کویتی کابینہ نے فیصلہ کیا تھا کہ ملک میں مقیم غیرملکیوں کو ویکسین اور مقررہ شرائط و ضوابط کے مطابق واپس آنے کا موقع دیا جائے گا۔
کویتی کابینہ نے پابندی لگائی ہے کہ وہی غیرملکی کویت واپس آ سکتے ہیں جو کویت میں منظور شدہ ویکسینوں میں سے کسی ایک کی دو خوراک لے چکے ہوں۔
کویت فائزر، ایسٹرازینکا آکسفورڈ اور موڈرنا ویکسینوں کی منظوری دیے ہوئے ہے۔ ان میں سے کسی ایک کی دو خوراکیں حاصل کرنے والے غیرملکی کویت واپس آ سکتے ہیں جبکہ جانسن اینڈ جانسن کی ایک خوراک لینے والوں کو واپسی کی اجازت ہوگی۔
کویتی کابینہ غیرملکیوں کی کویت واپسی کے حوالے سے ایک اور شرط یہ لگائے ہوئے ہے کہ کویت کا سفر شروع کرنے سے 72 گھنٹے قبل پی سی آر ٹیسٹ کرائیں اور ٹیسٹ کی رپورٹ منفی ہو۔
دوسری شرط یہ ہے کہ کویت آنے والے غیرملکیوں میں نزلہ، زکام، کھانسی، ٹمپریچر جیسی کوئی علامت نظر نہ آ رہی ہو۔
کویتی کابینہ نے یہ بھی شرط عائد کی ہے کہ کویت پہنچنے والے غیر ملکیوں کا 7 ویں دن ہاؤس آئسولیشن کے دوران پی سی آر کا دوسرا ٹیسٹ ہوگا۔
جنوبی افریقہ کے سابق کرکٹر ہرشل گبز نے کہا ہے کہ انڈین کرکٹ بورڈ کی جانب سے پاکستان کے ساتھ اپنے سیاسی ایجنڈے کے باعث ان کو کشمیر پریمیئر لیگ میں کھیلنے سے روکا جا رہا ہے۔
سنیچر کو ایک ٹویٹ میں ہرشل گبز کا کہنا تھا کہ انڈین کرکٹ بورڈ کا یہ اقدام مکمل طور پر غیر ضروری ہے۔
انہوں نے لکھا کہ ’مجھے یہ کہہ کر دھمکی بھی دی گئی ہے کہ اس کے بعد وہ انڈیا میں کرکٹ سے متعلق کسی بھی کام کے لیے داخل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘
ہرشل گبز نے اس صورتحال کو مضحکہ خیز قرار دیا۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے ہرشل گبز کی ٹویٹ کو ریٹویٹ کر کے تبصرہ کیا کہ انڈٰیا کی جانب سے کرکٹ کو سیاست زدہ کرنے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
ترجمان نے لکھا کہ ’کرکٹ کے بڑے ناموں کے ساتھ کشمیر کے نوجوان کھلاڑیوں کو ڈریسنگ رومز شیئر کرنے کے موقعے سے محروم کرنا بدقسمتی اور افسوسناک ہے۔‘
خیال رہے کہ جمعے کو کشمیر پریمیئر لیگ (کے پی ایل) کے صدر عارف ملک کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ’کشمیر پریمیئر لیگ کے مظفرآباد میں انعقاد پر انڈیا رکاوٹ پیدا کر رہا ہے۔‘
کرکٹ میلے کشمیر پریمیئر لیگ (کے پی ایل) کا آغاز 6 اگست سے مظفرآباد کرکٹ سٹیڈیم میں ہو رہا ہے جو 17 اگست تک جاری رہے گا۔ اس لیگ میں کُل چھ ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔
جمعے کو جاری بیان کے مطابق کے پی ایل کے صدر نے کہا کہ ’انگلش اور افریقی کھلاڑیوں کو روکے جانے پر لیگ نے باقی غیر ملکی کھلاڑیوں سے خود معذرت کر لی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کشمیر پریمیئر لیگ نے غیر ملکی کھلاڑیوں کی جگہ مزید مقامی کھلاڑیوں کو موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
کورونا وائرس کے بڑھتے کیسز کی وجہ سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز کی 27 گلیوں میں سمارٹ لاک ڈاؤن لگا دیا گیا ہے۔
سنیچر کو جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن کے مطابق ان علاقوں میں بنیادی ضرورت کی اشیا، ادویات، کھانے پینے کی چیزوں کی ترسیل کی اجازت ہوگی۔ جبکہ مریضوں کو بھی ہسپتال لے جانے کی اجازت ہوگی۔
ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے دفتر سے جاری ہونے والے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ضروری کاموں کے لیے ایس او پیز کی پابندی کرنا ہوگی ۔ شہریوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ادویات اور دیگر ضروری اشیاء کا بندوبست کر لیں اور اپنی طے شدہ مصروفیات کے اوقات بھی تبدیل کریں۔
قبل ازیں پاکستان کے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا تھا کہ کورونا کی چوتھی لہر خطرناک ہے، شہروں میں سمارٹ لاک ڈاؤن کے لیے سفارشات وزیراعظم کے زیر صدارت اجلاس میں کل پیش کریں گے۔
دوسری جانب سندھ حکومت کی جانب سے کراچی میں میں نافذ لاک ڈاؤن کے سبب تمام کاروباری مراکز کی بندش کے بعد شہر قائد کی تاجر تنظیموں کی نمائندہ تاجر ایکشن کمیٹی نے سندھ حکومت کی جانب سے عائد تمام ٹیکسوں کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے ٹیکس جمع کرنے والے حکام کے لیے مارکیٹوں کو نو گو ایریا بنا دیا جائے گا۔
کراچی میں 8 اگست تک مکمل لاک ڈاؤن نافذ ہونے کے نتیجے میں تمام کاروباری مراکز بند اور سرگرمیاں معطل ہوگئی ہیں، اسی تناظر میں کراچی تاجر ایکشن کمیٹی کا ایک اجلاس ہوا جس میں کاروبار کی بندش کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات کا جائزہ لیا گیا۔
کراچی تاجر ایکشن کمیٹی کے کنوینر رضوان عرفان نے کہا کہ حکومتی اجلاس میں فیڈریشن اور چیمبر کے نمائندے بھی موجود تھے جنہوں نے اس لاک ڈاؤن کی مخالفت کی، اس کے باوجود چیمبر اور فیڈریشن کے نمائندوں کی بات کو اہمیت نہیں دی گئی، ’ہم اس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور تمام صوبائی ٹیکسوں کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر صوبائی حکومت کے نمائندے مارکیٹوں میں ٹیکس وصولی کے لیے آئے تو مارکیٹوں کو ان حکام کے لیے نو گو ایریا بنا دیا جائے گا۔‘
سندھ تاجر اتحاد کے چیئرمین اور کراچی تاجر ایکشن کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر جمیل احمد پراچہ نے کہا کہ کشمیر الیکشن کے لیے کراچی اور سندھ سے لوگوں کو گاڑیاں بھر بھر کر لے جایا گیا، وہی لوگ کورونا لے کر واپس کراچی آ گئے۔
’اس کے علاوہ پورے سندھ سے تمام مریض کراچی منتقل کیے جا رہے ہیں اور انہی بڑھتے ہوئے کیسز کو بنیاد بنا کر کراچی کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر کمانے اور کھانے والے کہاں جائیں گے؟ ہمارے لوگ سڑکوں پر آنے کے لیے تیار ہیں۔ اگر پیر تک لاک ڈاؤن ختم نہ کیا گیا تو تاجر ہر صورت میں کاروبار کھولنے پر مجبور ہوں گے۔‘
آل سٹی تاجر اتحاد ایسوسی ایشن کے صدر اور کراچی تاجر ایکشن کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر محمد شرجیل گوپلانی نے سندھ حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وبا کا سارا نزلہ تاجروں پر ڈالا جا رہا ہے۔ اگر حالات بہت برے تھے تو حکومت نے الیکشن کیوں کروائے؟ ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے کہا تھا کہ ٹیکسوں پر رعایت دی جائے گی، مگر تاجروں کو کسی قسم کا ریلیف نہیں دیا گیا۔
شرجیل گوپلانی نے مزید کہا کہ ’اس وقت کراچی بندرگاہ پر بے شمار کنٹینر کھڑے ہیں جس کے لیے فی کنٹینر 18 سو سے لے کر اڑھائی ہزار روپے تک کراچی پورٹ اتھارٹی ڈیمیج لیتی ہیں اور ڈیٹینشن کی مد میں شپنگ کمپنیاں 70 سے ایک سو دس ڈالر لیتی ہیں جوکہ ملک سے باہر کی کمپنیاں ہیں۔‘
’اس طرح یہ سارا پیسہ ملک سے باہر جائے گا اور اس نقصان کی ذمہ دار بھی سندھ حکومت ہوگی۔ اگر حکومت تمام کنٹینر فوری طور پر ریلیز کردے تو یہ زرمبادلہ بچایا جاسکتا ہے۔‘
آل کراچی گروسریز کے چیئرمین رؤف ابراہیم نے کہا کہ ہماری مارکیٹیں کھلی ہونے کے باوجود ہم تاجروں کے ساتھ ہیں۔ اس مسئلے کے لیے جو فیصلہ بھی کراچی تاجر ایکشن کمیٹی کرے گی‘ ہم ان کی حمایت کریں گے اور ان کے فیصلے پر عمل کریں گے۔
’لاک ڈاؤن ضرور لگائیں غریبوں کو بھوکا نہ ماریں‘
سندھ حکومت کے لاک ڈاؤن کے فیصلہ پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ کسی نے اس فیصلے کو عوام کے لیے بہتر کہا تو کسی نے اسے ایک بڑا مسئلہ قرار دیا۔
ایسی ہی ایک بحث سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بھی جاری ہے۔ کچھ صارفین لاک ڈاؤن کے حق میں ٹویٹس کر رہے ہیں تو کچھ اس پر تنقید بھی کر رہے ہیں لیکن کچھ صارفین ایسے بھی ہیں جو لاک ڈاؤن کے حق میں تو ہیں پر ساتھ ہی سندھ حکومت کو غریب عوام کو دال روٹی مہیا کرنے کی تلقین کر رہے ہیں۔
صارف آصف راج قریشی لکھتے ہیں کہ ’کل سے صوبہ سندھ میں لاک ڈاؤن۔ پولیوں اور ویکسین کی طرح غریبوں کی دال روٹی کا بھی بندوبست کیا جائے۔ لاک ڈاؤن ضرور لگائیں غریبوں کو بھوکا نہ ماریں سندھ گورنمنٹ سے اپیل۔‘
سوشل میڈیا صارف فہیم خان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی جانب سے لاک ڈاؤن لگانے کے تین مقاصد ہیں جن میں ایس او پیز کا مکمل خیال، ہیلتھ کیئر سہولیات کو بہتر کرنا، ہسپتالوں پر دباؤ کم کرنا اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کی ویکسینیشن ممکن بنانا۔‘
وزیر اعظم کے معاون خصوصی عثمان ڈار اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر لکھتے ہیں کہ ’سندھ حکومت کا ایس او پیز پر عمل درآمد کروانے کی بجائے صوبے میں مکمل لاک ڈاون لگانا سمجھ سے باہر ہے! بغیر منصوبہ بندی لاک ڈاون انفورس کروانے سے نہ صرف سندھ سرکار کی اپنی رٹ متاثر ہوئی بلکہ عوام کو شدید اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ دیہاڑی دار مزدور کاروبار، روزگار اور معیشت سب متاثر ہوا!‘
خیال رہے کہ سنیچر کو سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ کراچی میں نقل و حمل پر پابندی میں نرمی کرتے ہوئے شہریوں کو ویکسینیشن سنٹرز تک جانے کی سہولت دینے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کو اجازت دی جا رہی ہے اور ڈبل سواری پر پابندی ختم کی جا رہی ہے۔
انہوں نے لاک ڈاؤن کے حوالے وفاقی وزرا کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ سندھ ٹاسک فورس نے ماہرین کے مشورے سے لاک ڈاؤن لگایا۔ بدقسمتی سے آج کہا جا رہا ہے کہ ہم سے مشاورت نہیں کی گئی۔ این سی او سی نے کہیں نے کہا کہ سندھ لاک ڈاؤن نہ لگائے۔‘
ترجمان سندھ حکومت کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر کوئی ادارہ، دکان یا شادی ہال ایس او پیز کی خلاف کرے گا تو نو اگست کے بعد اسے ایک مہینے کے لیے سیل کیا جائے گا۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں یکساں تعلیمی نصاب آج سے نافذ العمل ہے۔ صوبے کے تمام سرکاری اور غیر سرکاری سکول آج سے وہی سلیبس پڑھائیں گے جو حکومت سے منظور شدہ ہے۔ یکساں نصاب پہلی سے پانچویں جماعت تک ہو گا جس کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔
اردو نیوز کے پاس موجود نوٹیفیکشین کے مطابق پہلی سے پانچویں جماعت کے لیے صوبہ بھر میں ایک ہی سلیبیس رائج ہو چکا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے سال 2018 میں حکومت سنبھالنے کے بعد یہ اعلان کیا تھا کہ ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں یکساں تعلیمی نصاب رائج کیا جائے گا۔ اسی سلسلے میں پہلا مرحلہ مکمل کیا گیا اب آج دو اگست 2021 سے پنجاب کے تمام سرکاری اور غیر سرکاری سکولوں میں یکساں نصاب لاگو کر دیا گیا ہے۔
قبل ازیں خیبر پختونخوا میں بھی حکومت یہ عمل مکمل کر چکی ہے۔ البتہ سندھ اور بلوچستان میں عمل درآمد ہونا ابھی باقی ہے۔
حکومت کے اس عمل سے پرائیویٹ سکولز مطمئن نہیں۔ آل پاکستان پرائیویٹ سکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن کے صدر کاشف ادیب جاودانی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا ’ہمارا اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کہ حکومت یکساں نصاب کا نفاذ کر رہی ہے۔ ہمارا مسئلہ ہے کہ یہ ہو گا کیسے۔ ستر فیصد پرائیویٹ سکولوں کے پاس ابھی نئے سلیبیس کی کتابیں ہی نہیں ہیں۔ اور پرائیویٹ سکولوں سے اپنا تعلیمی سال مارچ سے شروع کر رکھا ہے اور مارچ سے اب تک پرانا سلیبس ہی پڑھایا گیا ہے کیونکہ یکساں تعلیمی نصاب کی کتابیں دستیاب ہی نہیں تھیں۔ ‘
انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ نئے یکساں نصاب کی کتابیں ایک پیچیدہ عمل تھا اور حکومت نے تیاری کے بغیر ہی اس کا نفاذ کر دیا ہے۔
انہوں نے بتایا ’یہ ایسا نہیں ہے کہ تمام سکول حکومت کی تیار کردہ کتابیں پڑھائیں گے بلکہ یکساں نصاب میں صرف بنیادیں فراہم کی گئیں ہیں جن کے مطابق کوئی بھی سکول اپنا مواد تیار کر سکتا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اپنا مواد استعمال کر کے کتابیں شائع کرنے کے لیے جو درخواستیں حکومت کو دی گئی ہیں ان پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ کیونکہ حکومت نے بہت کم پبلشرز کو پرنٹنگ رائٹس دیے ہیں ۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے آدھا سلیبیس پچھلا پڑھایا ہے اور یہ مارچ سے شروع ہے۔ اب ہم کیسے اپنے طلبہ کو کہہ سکتے ہیں کہ وہ نئی کتابیں خریدیں اور یکساں تعلیمی نظام کا حصہ بن جائیں۔‘
دوسری طرف پنجاب میں درسی کتب کے نگراں ادارے کے اعلیٰ حکام نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا ’یہ ایک عجیب بات ہے کہ واضع ڈیڈ لائن دیے جانے کے باوجود پرائیویٹ سکولوں نے اپنی کتابیں اتھارٹی سے منظور نہیں کروائیں۔ پنجاب کے تمام سرکاری سکولوں میں کل سے نیا طریقہ کار رائج ہو چکا ہے اور اب جو بھی اس کی خلاف ورزی کرے گا اس سے مختلف سلوک کیا جائے گا۔‘
ترجمان پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے مطابق اس وقت پنجاب کے تمام سرکاری اور نجی سکولوں میں یکساں نصاب کا نفاذ ہو چکا ہے ’جن لوگوں نے نئے طریقہ کار کے تحت اجازت نامہ نہیں لیا ان کے لیے صورت حال مختلف ہو سکتی ہے۔ اگر نجی سکولوں نے اپنی کتابیں نہیں چھپوائیں تو وہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی مارکیٹ میں موجود کتابوں سے استفادہ کر سکتے ہیں۔‘
یہ بات اپنی جگہ درست ہو سکتی ہے لیکن پرائیویٹ سکولز اس کو کسی اور ہی پیرائے میں لیتے ہیں۔ سرونگ سکولز ایسوسی ایشن کے سربراہ میاں رضا الرحمن نے اردو نیوز کو بتایا ’یکساں نصاب بری چیز نہیں ہے لیکن اگر آپ نصاب کے مطابق کتابیں چھپوانے کے این او سی جاری نہیں کریں گے تو یہ صنعت کہاں جائے گی؟ ہمارا یہ ماننا ہے کہ حکومت جان بوجھ کے اس شعبے کو نظر انداز کر رہی ہے۔ اور بہت کم پبلشرز کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے مواد چھاپ سکیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہمیں خدشہ ہے کہ این او سی جاری نہ کر کے پرائیویٹ سکولوں کو بھی اس بات پر مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ سرکاری کتابوں کا ہی نفاذ کریں۔‘
تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ اس بات میں کوئی صداقت نہیں۔
خیال رہے کہ اس وقت پنجاب میں پرائیویٹ سکولوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ میاں رضا الرحمان کے مطابق ’حکومت نے ہمیں کتابیں چھاپنے کی اجازت نہیں دی اس لیے ہم مجبور ہیں کہ جو مواد پہلے سے تصدیق شدہ ہے اسی کو بوسٹر کے طور پر استعمال کیا جائے۔‘