رواں ہفتہ امریکا کے لیے ہلاکتوں کے لحاظ سے انتہائی مہلک ثابت ہوا اور اس دوران امریکا بھر میں مرنے والوں کی تعداد تقریباً دگنی ہوگئی جبکہ مصدقہ مریضوں کی تعداد بھی 5 لاکھ سے تجاوز کر گئی۔
واضح رہے کہ یہ وائرس اب تک دنیا بھر میں تقریباً 17 لاکھ لوگوں کو متاثر کرچکا ہےجس میں سب سے زیادہ مریض امریکا میں سامنے آئے جہاں اب تک 18 ہزار 693 ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔
اس حوالے سے پاکستانی قونصل جنرل عائشہ علی نے بتایا کہ ہسپتالوں، جنازہ گاہوں اور اہلِ خانہ سے اکٹھی کی گئی معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیویارک اور نیو جرسی کے علاقوں میں 100 سے زائد پاکستانی اس مہلک وائرس کے باعث جاں بحق ہوئے۔
دوسری جانب پاکستانی سفارتخانے کی ترجمان زوبیہ مسعود کا کہنا تھا کہ ’دیگر ریاستوں میں بھی کچھ پاکستانیوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں اور اس حوالے سے معلومات اکٹھی کررہے ہیں کہ اس وبا نے پاکستانی امریکی کمیونٹی کو کس طرح متاثر کیا‘۔
نیویارک سے جاری ہونے والے اعداد و شمار اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ دیگر نسل کے افراد پر اس وبا کے مہلک اثرات مرتب ہوئے۔
اب تک سب سے زیادہ اموات ہسپانوی کمیونٹی میں ہوئی جو 34 فیصد ہے، اس کے بعد افریقی امریکیوں کے مرنے کی شرح 28 فیصد رہی جبکہ سفید فام امریکیوں میں 27 فیصد افراد ہلاک ہوئے، مزید یہ کہ ایشیائی امریکیوں میں یہ شرح 7 فیصد رہی جس میں پاکستانی اور بھارتی دونوں شامل ہیں۔
قونصل جنرل عائشہ علی کا کہنا تھا کہ ’جتنی زیادہ معلومات سامنے آئے گی ہمیں خدشہ ہے کہ اموات کی تعداد بڑھے گی، ہماری کمیونٹی مضبوط ہے (اور) انہوں نے بہت کچھ اپنے بل بوتے پر کیا ہے‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کمیونٹی کی جانب سے کمزور طبقے یعنی 50 سال سے زائد عمر کے وہ افراد جو اشیائے خورو نوش خریدنے باہر نہیں جاسکتے ان میں خوراک تقسیم کی جارہی ہے کیونکہ اعداد و شمار کے مطابق 90 فیصد اموات اسی عمر کے افراد میں ہوئی ہیں۔
حال ہی میں اپنی خدمات کے عوض امریکا کے انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ سے ایوارڈ پانے والے پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹر سرفراز میمن نے کہا کہ نیویارک جیسے گنجان علاقوں میں رہائش اور پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال اس وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ مزید بڑھا دیتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بڑے شہروں میں اکثر افراد کو باہر کھانا کھانے کی عادت ہوتی ہے اور ’ہمارے دیسی ریسٹورنٹس میں اکثر صفائی کی صورتحال ناقص ہوتی ہے اور اس کے وہاں کھانا کھانے والوں پر خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں‘۔
کوئی تبصرے نہیں: