پاکستان میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لاک ڈاؤن کیا جا رہا ہے جس میں وزیر اعظم عمران خان نے دو ہفتے کی توسیع کا اعلان کیا ہے۔
لاک ڈاؤن کے تحت مذہبی اجتماعات پر بھی پابندی ہے۔ صوبہِ سندھ کی حکومت کی جانب سے دو اپریل کو جاری حکمنامے کے مطابق پنج وقتہ اور جمعے کی جماعت میں پانچ سے زائد افراد کی شرکت پر پابندی عائد کی گئی تھی جو چودہ اپریل تک موثر رہی۔
تاہم مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے علما اور مذہبی جماعتوں کے نمائندوں نے پابندی کے آخری روز کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعلان کیا کہ مساجد پر لاک ڈاؤن کا مزید اطلاق نہیں ہوگا۔
چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمان اور دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والے نامور عالمِ دین مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ مسجد کے عملے میں سے تین سے پانچ افراد کی جانب سے نماز کی ادائیگی کی شرط قابلِ عمل ثابت نہیں ہو رہی۔
مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ ملک بھر میں مساجد کھولی جا رہی ہیں اور اُن میں پنج وقتہ باجماعت نماز اور نمازِ جمعہ ادا کی جائے گی۔ علما کا کہنا تھا کہ رمضان المبارک کے آغاز پر نمازِ تراویح اور اعتکاف کا انعقاد بھی معمول کے مطابق کیا جائے گا۔
مشترکہ اعلامیے میں علما کی جانب سے لوگوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ گھر سے وضو کر کے آئیں اور مساجد میں صرف فرض رکعات ادا کریں۔
احتیاطی تدابیر کے تحت نمازیوں کو یہ ہدایت بھی کی گئی کہ بیمار یا وائرس سے متاثر افراد، یا کسی متاثرہ شخص کی دیکھ بھال کرنے والے لوگ مساجد میں نہ آئیں۔
اِس اعلان کے بعد بدھ کے روز کراچی میں واقع جامعہ العلوم الاسلامیہ کے احاطے میں قائم شہر کی چند بڑی مساجد میں سے ایک جامع مسجد بنوری ٹاؤن میں سو سے زائد افراد نے نمازِ ظہر باجماعت ادا کی۔
علما کی ہدایات کے برعکس صفوں کے درمیان ایک صف کا فاصلہ اور نمازیوں کے درمیان جگہ نہیں چھوڑی گئی۔ منگل کے روز کی گئی پریس کانفرنس میں بزرگوں کے وائرس سے متاثر ہونے کے خدشے کے پیش نظر مساجد آنے سے منع کیا گیا تھا لیکن جامع مسجد نیو ٹاؤن میں ایک درجن سے زائد ضعیف افراد نے کرسیوں پر بیٹھ کر نماز ادا کی۔
بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق مسجد کے داخلی دروازوں پر کہیں بھی سینیٹائزرز نہیں رکھے گئے تھے اور حفاظتی ماسک بھی صرف چند نمازیوں نے پہنے۔ مسجد کے احاطے میں بے شمار افراد وضو کرتے اور فرض رکعات سے پہلے سنتیں ادا کرتے بھی نظر آئے۔
اِس بارے میں جب بی بی سی نے مفتی منیب الرحمان سے رابطہ کیا تو اُن کا کہنا تھا کہ اِن رہنما اصولوں پر عوام کو آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
مفتی منیب کے مطابق جب نمازیوں کو مساجد میں ایک مخصوص ضابطہ اخلاق پر عمل کرنے کا پابند بنایا جائے گا تو وہ اُس پر ضرور عمل کریں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ 'ہمیں مساجد میں نمازیوں کی تعداد پر پابندی ہرگز قبول نہیں۔ جب کسی اور عوامی مقام پر لوگوں کی تعداد پر پابندی نہیں تو یہاں کیوں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ شاپنگ مال کے لیے کوئی اور اصول ہو اور مسجد کے لیے کوئی اور۔'
مفتی منیب کا موقف تھا کہ 'ہم ریاست کے ساتھ لڑنا نہیں چاہتے۔ ہم افہام و تفہیم سے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں۔ علما کرام کا موقف ہے کہ طبی ماہرین کے ساتھ مل کر ایک ایسا قابلِ عمل حل نکالا جائے جس کے تحت مساجد میں کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے سوشل ڈسٹنسنگ کے اصولوں پر عملدرآمد بھی ہو اور مساجد بھی بند نہ کرنی پڑیں۔'
اُدھر وفاقی وزیرِ مذہبی أمور پیر نور الحق قادری کا علما کی پریس کانفرنس کے ردعمل میں کہنا تھا کہ نمازِ جمعہ سمیت تمام باجماعت نمازوں، تراویح اور اعتکاف کے بارے میں فیصلے علما سے مشاورت کے بعد کیے جائیں گے۔لہذا 'انفرادی اور مقامی' فیصلوں سے اجتناب کرتے ہوئے اتحاد اور اتفاق کی فضا کو فروغ دیا جائے۔
کو صدر عارف علوی کی سربراہی میں منعقد ہونے والے اجلاس میں اعتماد میں لیا جائے گا۔اِس سلسلے میں علما اور مذہبی و سیاسی رہنماؤں کو اٹھارہ اپریل
کوئی تبصرے نہیں: