سینئر صحافی حامد میر کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان میں سیاسی درجہ حرارت بڑھے گا،بلکہ شاید سیاسی درجہ حرارت بڑھنے سے بھی کچھ زیادہ ہونے والا ہے۔نواز شریف کی حالیہ تقریر اور مریم نواز کا لب و لہجہ دیکھ کر لگتا ہے کہ انہوں نے قبل از وقت بہت سخت رویہ اختیار کر لیا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ وہ نہ صرف حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں بلکہ ن لیگ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو بھی دباؤ میں لا رہی ہے۔
آصف علی زرداری اور نواز شریف کے مابین چار بار تفصیلی گفتگو ہوئی،اس گفتگو میں اسمبلیوں سے استفعوں پر اتفاق نہیں ہوا۔اگر قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لائی جاتی ہے تو مجھے نہیں لگتا کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے پیچھے سے ہٹے گی۔
ایک بات پر پی ڈی ایم کا اتفاق ہے کہ ہم نے اسلام آباد پر حملہ کرنا ہے۔اگر یہ اسلام آباد پر حملہ آور ہوتے ہیں تو ظاہر ہے صرف عمران خان کے استفعے کا مطالبہ تو نہیں کیا جائے گا۔
میرے خیال سے دو تین اور شخصیات کے بھی استفعے مانگے جائیں گے جس سے حالات بگڑ سکتے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ اب سیاسی اختلافات ذاتی دشمنی میں بدل گئے ہیں۔جو لوگ کہتے ہیں کہ نیشنل ڈائیلاگ ہونا چاہئیے ان کو نہیں معلوم کہ بیک ڈور کیا چل رہا ہے۔اسی حوالے سے سینئر صحافی روف کلاسرا کا کہنا ہے کہ شہباز شریف نے پیرول پر رہائی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گرینڈ ڈائیلاگ کی بات کی ہے۔اگرچہ یہ بظاہر غیر معمولی بات نہیں لگتی مگر کچھ دیگر معاملات کو دیکھا جائے تو اس کی معنی خیزی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اس بات کے پیچھے کچھ کہانی ہے جو کہ میں آج آپ کو بتاؤں گا۔ خواجہ آصف نے بھی نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے نیشنل ڈائیلاگ کی بات دہرائی انہوں نے کہا کہ میڈیا کو بیٹھ کر یہ مکالمہ کرنا چاہیے یہ بھی حیرت انگیز بات تھی۔مریم نواز نے بھی چند روز قبل کہا تھا کہ وہ مذاکرات کے لیے تیار ہے، اگرچہ انہوں نے اس کے لئے عمران خان کی حکومت کے خاتمے کی شرط رکھ دی تھی مگر اس سے سودے بازی کے نقطہ نظر سے دیکھا جا سکتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں: